پیر نصیر الدین نصیرؔ شاہ

1 غزل

بَن کے تصویرِ غم رہ گئے ہیں کھوئے کھوئے سے ہم رہ گئے ہیں
بانٹ لیں سب نے آپس میں خوشیاں میرے حصے میں غم رہ گئے ہیں
اب نہ اُٹھنا سِرہانے سے میرے اب تو گِنتی کے دَم رہ گئے ہیں
قافلہ چل کے منزل پہ پہنچا ٹھرو ٹھرو کہ ہم رہ گئے ہیں
اے صبا ایک زحمت ذرا پِھر اُن کی زُلفوں میں خم رہ گئے ہیں
دیکھ کر اُن کے منگتوں کی غیرت دنگ اہلِ کرم رہ گئے ہیں
اُن کی ستاریاں کچھ نہ پوچھو عاصیوں کے بھرم رہ گئے ہیں
کائناتِ جفا و وفا میں ایک تُم ایک ہم رہ گئے ہیں
آج ساقی پِلا شیخ کو بھی اِیک یہ محترم رہ گئے ہیں
اللہ اللہ یہ کِس کی گلی ہے اُٹھتے اُٹھتے قدم رہ گئے ہیں
کیجیئے جو سِتم رہ گئے ہیں جان دینے کو ہم رہ گئے ہیں
ہم سے اللہ والے کہاں اب آپ جیسے صنم رہ گئے ہیں
دو قدم چَل کے راہِ وفا میں تھک گئے تُم کے ہم رہ گئے ہیں
وہ تو آ کر گئے بھی کبھی کے دِل پہ نقشِ قدم رہ گئے ہیں
وہ گئے جِن کے دَم سے تھی رونق اور رہنے کو ہم رہ گئے ہیں
دورِ ماضی کی تصویرِ آخر اب نصیرؔ ایک ہم رہ گئے ہیں
دِل نصیرؔ اُن کا تھا لے گئے وہ غم خدا کی قسم رہ گئے ہیں
(پیر نصیر الدین نصیرؔ شاہ)