| بَن کے تصویرِ غم رہ گئے ہیں |
کھوئے کھوئے سے ہم رہ گئے ہیں |
| بانٹ لیں سب نے آپس میں خوشیاں |
میرے حصے میں غم رہ گئے ہیں |
| اب نہ اُٹھنا سِرہانے سے میرے |
اب تو گِنتی کے دَم رہ گئے ہیں |
| قافلہ چل کے منزل پہ پہنچا |
ٹھرو ٹھرو کہ ہم رہ گئے ہیں |
| اے صبا ایک زحمت ذرا پِھر |
اُن کی زُلفوں میں خم رہ گئے ہیں |
| دیکھ کر اُن کے منگتوں کی غیرت |
دنگ اہلِ کرم رہ گئے ہیں |
| اُن کی ستاریاں کچھ نہ پوچھو |
عاصیوں کے بھرم رہ گئے ہیں |
| کائناتِ جفا و وفا میں |
ایک تُم ایک ہم رہ گئے ہیں |
| آج ساقی پِلا شیخ کو بھی |
اِیک یہ محترم رہ گئے ہیں |
| اللہ اللہ یہ کِس کی گلی ہے |
اُٹھتے اُٹھتے قدم رہ گئے ہیں |
| کیجیئے جو سِتم رہ گئے ہیں |
جان دینے کو ہم رہ گئے ہیں |
| ہم سے اللہ والے کہاں اب |
آپ جیسے صنم رہ گئے ہیں |
| دو قدم چَل کے راہِ وفا میں |
تھک گئے تُم کے ہم رہ گئے ہیں |
| وہ تو آ کر گئے بھی کبھی کے |
دِل پہ نقشِ قدم رہ گئے ہیں |
| وہ گئے جِن کے دَم سے تھی رونق |
اور رہنے کو ہم رہ گئے ہیں |
| دورِ ماضی کی تصویرِ آخر |
اب نصیرؔ ایک ہم رہ گئے ہیں |
| دِل نصیرؔ اُن کا تھا لے گئے وہ |
غم خدا کی قسم رہ گئے ہیں |
|
|
|
(پیر نصیر الدین نصیرؔ شاہ) |