اُردو

22:07 2024-03-27


اے عشق ہمیں برباد نہ کر


ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں


اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے


ہر چند سہارا ہے ترے پیار کا دل کو


دل لگی دل کی لگی بن کے مٹا دیتی ہے


بَن کے تصویرِ غم رہ گئے ہیں


بے خُود کِیے دیتے ہیں اَندازِ حِجَابَانَہ


ہم نے باندھا ہے تیرے عشق میں احرامِ جنوں


میرے ہم نفس، میرے ہم نوا، مجھے دوست بن کے دغا نہ دے


وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا


خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے


زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں


ضروری تھا کہ ہم دونوں طوافِ آرزؤ کرتے


اُٹھ شاہ حُسینا ویکھ لے اسّی بدلی بیٹھے بھیس


یہ مشغلہ ہے کسی کا نہ جانے کیا چاہے


پھر شورِ سلاسل میں سرورِ ازلی ہے