اردو
تم کہتے ہو خاموش رہو؟
تم کہتے ہو خاموش رہو؟
جب دنیا کے بُت خانوں میں اصنام کی پوجا جاری ہو
جب ایک انسان کی عظمت پر پتھر کا دم بھاری ہو
جب من کی جمنا میلی ہو اور روح میں اک بیزاری ہو
جب جھوٹ کے ان بھگوانوں سے ایمان پہ لرزہ طاری ہو
اس حال میں ہم دیوانوں سے تم کہتے ہو خاموش رہو؟
ہم اہلِ حرم ہیں اب ہم سے یہ کفر گوارا کیسے ہو
ہم لوگ اناالحق بولیں گے ، ہم لوگ اناالحق بولیں گے
جب مسند و منبر پر بیٹھی ہر ایک نظر للچاتی ہو
جب صرف دکھاوے کی خاطر تسبیح اٹھائی جاتی ہو
جب دین کے ٹھیکے داروں میں اک نفس امارہ باقی ہو
بے ذوق جہاں پہ صاحبہ ہو بے ذوق جہاں پر ساقی ہو
اس حال میں ہم دیوانوں سے تم کہتے ہو خاموش رہو؟
جب اہلِ خرد کی باتوں پر کچھ جاہل شور مچاتے ہوں
جب بلبل ہو تصویرِ چمن اور کوّے گیت سناتے ہوں
جب چڑیوں کے ان گھونسلوں میں کچھ سانپ اتارے جاتے ہوں
جب مالی اپنے گلشن میں خود ہاتھ سے آگ لگاتے ہوں
اس حال میں ہم دیوانوں سے تم کہتے ہو خاموش رہو؟
جب شاہ کے ایک اشارے پر اپنوں میں نیازیں بٹتی ہوں
جب آنکھیں غربت ماروں کی حسرت کا نظارہ کرتی ہوں
جب قلمیں ظالم جابر کی عظمت کا قصیدہ لکھتی ہوں
جب حق کی باتیں کہنے پہ انسان کی زبانیں کٹتی ہوں
اس حال میں ہم دیوانوں سے تم کہتے ہو خاموش رہو؟
جب مصر کے ان بازاروں میں کنعان کو بیچا جاتا ہو
جب حرص ہوس کی منڈی میں ایمان کو بیچا جاتا ہو
جب صوم صلاۃ کے پردے میں قرآن کو بیچا جاتا ہو
انسان کو بیچا جاتا ہو، یزدان کو بیچا جاتا ہو
اس حال میں ہم دیوانوں سے تم کہتے ہو خاموش رہو؟
جس دور میں کعبہ والوں کو گِرجوں کے نظارے بھاتے ہوں
جس دور میں مشرق والے بھی مغرب کے ترانے گاتے ہوں
جس دور میں مسلم لیڈر بھی کچھ کہنے سے گھبراتے ہوں
جس دور میں سبقتؔ غیرت کے اسباب عدم ہو جاتے ہوں
اس دور میں ہم دیوانوں سے تم کہتے ہو خاموش رہو ؟
(مشتاق سبقتؔ)
وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی
غزل
وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی
کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی
نہ اپنا رنج نہ اوروں کا دکھ نہ تیرا ملال
شب فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی
محبتوں کا سفر اس طرح بھی گزرا تھا
شکستہ دل تھے مسافر شکستہ پائی نہ تھی
عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت
بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا، بے وفائی نہ تھی
بچھڑتے وقت ان آنکھوں میں تھی ہماری غزل
غزل بھی وہ جو کسی کو ابھی سنائی نہ تھی
کسے پکار رہا تھا وہ ڈوبتا ہوا دن
صدا تو آئی تھی لیکن کوئی دہائی نہ تھی
کبھی یہ حال کہ دونوں میں یک دلی تھی بہت
کبھی یہ مرحلہ جیسے کہ آشنائی نہ تھی
عجیب ہوتی ہے راہ سخن بھی دیکھ نصیرؔ
وہاں بھی آ گئے آخر، جہاں رسائی نہ تھی
(نصیرؔ ترابی)
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
غزل
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
تھے بہت بے درد لمحے ختم درد عشق کے
تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد
دل تو چاہا پر شکست دل نے مہلت ہی نہ دی
کچھ گلے شکوے بھی کر لیتے مناجاتوں کے بعد
ان سے جو کہنے گئے تھے فیضؔ جاں صدقہ کیے
ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد
(فیض احمد فیضؔ)
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
نظم
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
اے عشق نہ چھیڑ آ آ کے ہمیں
ہم بھولے ہوؤں کو یاد نہ کر
پہلے ہی بہت ناشاد ہیں ہم تو
اور ہمیں ناشاد نہ کر
قسمت کا ستم ہی کم نہیں
کچھ یہ تازہ ستم ایجاد نہ کر
یوں ظلم نہ کر بیداد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
راتوں کو اٹھ اٹھ کر روتے ہیں
رو رو کے دعائیں کرتے ہیں
آنکھوں میں تصور دل میں خلش
سر دھنتے ہیں آہیں بھرتے ہیں
اے عشق یہ کیسا روگ لگا
جیتے ہیں نہ ظالم مرتے ہیں
ان خوابوں سے یوں آزاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
جس دن سے بندھا ہے دھیان ترا
گھبرائے ہوئے سے رہتے ہیں
ہر وقت تصور کر کر کے
شرمائے ہوئے سے رہتے ہیں
کملائے ہوئے پھولوں کی طرح
کملائے ہوئے سے رہتے ہیں
پامال نہ کر بیداد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
(اخترؔ شیرانی)
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
غزل
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
ستم ہو کہ ہو وعدۂ بے حجابی
کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں
یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں
ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا
وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں
کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہل محفل
چراغ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں
(محمد اقبال)
اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے
غزل
اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے
منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آ جائے
اے دل کی لگی چل یوں ہی سہی چلتا تو ہوں ان کی محفل میں
اس وقت مجھے چونکا دینا جب رنگ پہ محفل آ جائے
اے رہبر کامل چلنے کو تیار تو ہوں پر یاد رہے
اس وقت مجھے بھٹکا دینا جب سامنے منزل آ جائے
ہاں یاد مجھے تم کر لینا آواز مجھے تم دے لینا
اس راہ محبت میں کوئی درپیش جو مشکل آ جائے
اب کیوں ڈھونڈوں وہ چشم کرم ہونے دے ستم بالائے ستم
میں چاہتا ہوں اے جذبۂ غم مشکل پس مشکل آ جائے
اس جذبۂ دل کے بارے میں اک مشورہ تم سے لیتا ہوں
اس وقت مجھے کیا لازم ہے جب تجھ پہ مرا دل آ جائے
اے برق تجلی کوندھ ذرا کیا مجھ کو بھی موسیٰ سمجھا ہے
میں طور نہیں جو جل جاؤں جو چاہے مقابل آ جائے
کشتی کو خدا پر چھوڑ بھی دے کشتی کا خدا خود حافظ ہے
مشکل تو نہیں ان موجوں میں بہتا ہوا ساحل آ جائے
(بہزادؔ لکھنوی)
ہر چند سہارا ہے ترے پیار کا دل کو
غزل
ہر چند سہارا ہے ترے پیار کا دل کو
رہتا ہے مگر ایک عجب خوف سا دل کو
وہ خواب کہ دیکھا نہ کبھی لے اڑا نیندیں
وہ درد کہ اٹھا نہ کبھی کھا گیا دل کو
یا سانس کا لینا بھی گزر جانا ہے جی سے
یا معرکۂ عشق بھی اک کھیل تھا دل کو
وہ آئیں تو حیران وہ جائیں تو پریشان
یارب کوئی سمجھائے یہ کیا ہو گیا دل کو
سونے نہ دیا شورش ہستی نے گھڑی بھر
میں لاکھ ترا ذکر سناتا رہا دل کو
روداد محبت نہ رہی اس کے سوا یاد
اک اجنبی آیا تھا اڑا لے گیا دل کو
جز گرد خموشی نہیں شہرتؔ یہاں کچھ بھی
کس منزل آباد میں پہنچا لیا دل کو
(شہرتؔ بخاری)
دل لگی دل کی لگی بن کے مٹا دیتی ہے
غزل
دل لگی دل کی لگی بن کے مٹا دیتی ہے
روگ دشمن کو بھی یا رب نہ لگانا دل کا
ان کے اندازِ کرم ان پہ وہ آنا دل کا
ہائے وہ وقت وہ باتیں وہ زمانہ دل کا
نہ سنا اس نے توجہ سے فسانہ دل کا
عمر گزری ہے مگر درد نہ جانا دل کا
وہ بھی اپنے نہ ہوئے دل بھی گیا ہاتھوں سے
ایسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آنا دل کا
نقش برآب نہیں رحم نہیں خواب نہیں
آپ کیوں کھیل سمجھتے ہیں مٹانا دل کا
ان کی محفل میں نصیرؔ انکے تبسم کی قسم
دیکھتے رہ گئے ہم ہاتھ سے جانا دل کا
(نصیر احمد نصیرؔ)
بَن کے تصویرِ غم رہ گئے ہیں
غزل
بَن کے تصویرِ غم رہ گئے ہیں
کھوئے کھوئے سے ہم رہ گئے ہیں
بانٹ لیں سب نے آپس میں خوشیاں
میرے حصے میں غم رہ گئے ہیں
اب نہ اُٹھنا سِرہانے سے میرے
اب تو گِنتی کے دَم رہ گئے ہیں
قافلہ چل کے منزل پہ پہنچا
ٹھرو ٹھرو کہ ہم رہ گئے ہیں
اے صبا ایک زحمت ذرا پِھر
اُن کی زُلفوں میں خم رہ گئے ہیں
دیکھ کر اُن کے منگتوں کی غیرت
دنگ اہلِ کرم رہ گئے ہیں
اُن کی ستاریاں کچھ نہ پوچھو
عاصیوں کے بھرم رہ گئے ہیں
کائناتِ جفا و وفا میں
ایک تُم ایک ہم رہ گئے ہیں
آج ساقی پِلا شیخ کو بھی
اِیک یہ محترم رہ گئے ہیں
اللہ اللہ یہ کِس کی گلی ہے
اُٹھتے اُٹھتے قدم رہ گئے ہیں
کیجیئے جو سِتم رہ گئے ہیں
جان دینے کو ہم رہ گئے ہیں
ہم سے اللہ والے کہاں اب
آپ جیسے صنم رہ گئے ہیں
دو قدم چَل کے راہِ وفا میں
تھک گئے تُم کے ہم رہ گئے ہیں
وہ تو آ کر گئے بھی کبھی کے
دِل پہ نقشِ قدم رہ گئے ہیں
وہ گئے جِن کے دَم سے تھی رونق
اور رہنے کو ہم رہ گئے ہیں
دورِ ماضی کی تصویرِ آخر
اب نصیرؔ ایک ہم رہ گئے ہیں
دِل نصیرؔ اُن کا تھا لے گئے وہ
غم خدا کی قسم رہ گئے ہیں
(نصیر الدین نصیرؔ)
بے خُود کِیے دیتے ہیں اَندازِ حِجَابَانَہ
غزل
بے خُود کیے دیتے ہیں اَندازِ حِجَابَانَہ
آ دل میں تُجھے رکھ لُوں اے جلوہ جَانَانَہ
کِیوں آنکھ ملائی تھی کیوں آگ لگائی تھی
اب رُخ کو چُھپا بیٹھے کر کے مُجھے دِیوانہ
اتنا تو کرم کرنا اے چشمِ کریمانہ
جب جان لبوں پر ہو تُم سامنے آ جانا
اب موت کی سختی تو برداشت نہیں ہوتی
تُم سامنے آ بیٹھو دم نِکلے گا آسانہ
دُنیا میں مُجھے اپنا جو تُم نے بنایا ہے
محشر میں بھی کہہ دینا یہ ہے مرا دیوانہ
جاناں تُجھے ملنے کی تدبیر یہ سُوجی ہے
ہم دل میں بنا لیں گے چھوٹا سا صنم خانہ
میں ہوش و حواس اپنے اس بات پہ کھو بیٹھا
تُو نے جو کہا ہنس کے یہ ہے میرا دیوانہ
پینے کو تو پی لُوں گا پر عَرض ذرا سی ہے
اجمیر کا ساقی ہو بغداد کا میخانہ
کیا لُطف ہو محشر میں شکوے میں کیے جاوں
وہ ہنس کے یہ فرمائیں دیوانہ ہے دیوانہ
جِی چاہتا ہے تحفے میں بھیجُوں اُنہیں آنکھیں
درشن کا تو درشن ہو نذرانے کا نذرانَہ
بیدمؔ میری قسمت میں سجدے ہیں اُسی در کے
چُھوٹا ہے نہ چُھوٹے گا سنگِ درِ جَانَانَہ
(بیدمؔ شاہ وارثی)
ہم نے باندھا ہے تیرے عشق میں احرامِ جنوں
غزل
ہم نے باندھا ہے تیرے عشق میں احرامِ جنوں
ہم بھی دیکھے گے تماشا تیری لیلائی کا
ہو کے روپوش نہ دِل توڑ تمنائی کا
حوصلہ پست نہ کر اپنے تُو شیدائی کا
نِت نئے روپ میں تُجھے دیکھا جس جا دیکھا
کیا ٹھکانہ ہے رُخِ یار کی زیبائی کا
کبھی مسجد، کبھی مندر، کبھی دِل میں مُقیم
کیا پتا پائے کوئی اُس بُتِ ہرجائی کا
رات کٹتی نہیں اے چاند یہ اُن سے کہنا
دِن گُزرتا ہے تڑپ کر تیرے سودائی کا
جیتے جی سر نہ اُٹھے یار کے در سے بیدمؔ
یہ مزہ ہے اِسی چوکھٹ پہ جبیں سائی کا
(بیدمؔ شاہ وارثی)
میرے ہم نفس، میرے ہم نوا، مجھے دوست بن کے دغا نہ دے
غزل
میرے ہم نفس، میرے ہم نوا، مجھے دوست بن کے دغا نہ دے
میں ہوں دردِ عشق سے جاں بلب مجھے زندگی کی دُعا نہ دے
میرے داغِ دل سے ہے روشنی، اسی روشنی سے ہے زندگی
مجھے ڈر ہے اے میرے چارہ گر، یہ چراغ تو ہی بجھا نہ دے
مجھے چھوڑ دے میرے حال پر، ترا کیا بھروسہ اے چارہ گر
یہ تری نوازشِ مختصر، میرا درد اور بڑھا نہ دے
میں غمِ جہاں سے نڈھال ہوں کہ سراپا حزن و ملال ہوں
جو لکھے ہیں میرے نصیب میں وہ الم کسی کو خُدا نہ دے
میرا عزم اتنا بلند ہے کہ پرائے شعلوں کا ڈر نہیں
مجھے خوف آتشِ گُل سے ہے یہ کہیں چمن کو جلا نہ دے
وہ اُٹھے ہیں لے کے خم و سبو، ارے اے شکیل کہاں ہے تُو
ترا جام لینے کو بزم میں، کوئی اور ہاتھ بڑھا نہ دے
(شکیل بدایونی)
وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا
غزل
وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا
کوئی مہر نہیں کوئی قہر نہیں پھر سچا شعر سنائیں کیا
اک ہجر جو ہم کو لاحق ہے تا دیر اسے دہرائیں کیا
وہ زہر جو دل میں اتار لیا پھر اس کے ناز اٹھائیں کیا
اک آگ غم تنہائی کی جو سارے بدن میں پھیل گئی
جب جسم ہی سارا جلتا ہو پھر دامن دل کو بچائیں کیا
ہم نغمہ سرا کچھ غزلوں کے ہم صورت گر کچھ خوابوں کے
بے جذبۂ شوق سنائیں کیا کوئی خواب نہ ہو تو بتائیں کیا
(اطہرنفیسؔ)
خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے
غزل
خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے
کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہ دے
خطاوار سمجھے گی دنیا تجھے
اب اتنی زیادہ صفائی نہ دے
ہنسو آج اتنا کہ اس شور میں
صدا سسکیوں کی سنائی نہ دے
غلامی کو برکت سمجھنے لگیں
اسیروں کو ایسی رہائی نہ دے
خدا ایسے احساس کا نام ہے
رہے سامنے اور دکھائی نہ دے
(بشیر بدرؔ)
زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں
غزل
زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں
اور کیا جرم ہے پتا ہی نہیں
اتنے حصوں میں بٹ گیا ہوں میں
میرے حصے میں کچھ بچا ہی نہیں
زندگی موت تیری منزل ہے
دوسرا کوئی راستہ ہی نہیں
سچ گھٹے یا بڑھے تو سچ نہ رہے
جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں
زندگی اب بتا کہاں جائیں
زہر بازار میں ملا ہی نہیں
جس کے کارن فساد ہوتے ہیں
اس کا کوئی اتا پتا ہی نہیں
کیسے اوتار کیسے پیغمبر
ایسا لگتا ہے اب خدا ہی نہیں
چاہے سونے کے فریم میں جڑ دو
آئینہ جھوٹ بولتا ہی نہیں
اپنی رچناؤں میں وہ زندہ ہے
نورؔ سنسار سے گیا ہی نہیں
(کرشن بہاری نورؔ)
ضروری تھا کہ ہم دونوں طوافِ آرزؤ کرتے
نظم
لفظ کتنے ہی تیرے پیروں سے لپٹے ہوں گے
تُو نے جب آخری خط میرا جلایا ہوگا
تُو نے جب پھول کتابوں سے نکالے ہوں گے
دِینے والا بھی تجھے یاد تو آیا ہوگا
تیری آنکھوں کے دریا کا اتُرنا بھی ضروری تھا
محبت بھی ضروری تھی بچھڑنا بھی ضروری تھا
ضروری تھا کہ ہم دونوں طوافِ آرزؤ کرتے
مگر پھر آرزؤوں کا بکھرنا بھی ضروری تھا
بتاؤ یاد ہے تم کو وہ جب دل کو چُرایا تھا
چُرائی چیز کو تم نے خدا کا گھر بنایا تھا
وہ جب کہتے تھے میرا نام تم تسبیح میں پڑھتے ہو
محبت کی نمازوں کو قضا کرنے سے ڈرتے ہو
مگر اب یاد آتا ہے وہ باتیں تھیں محض باتیں
کہیں باتوں ہی باتوں میں مُکرنا بھی ضروری تھا
وہی ہے صورتیں اپنی وہی میں ہوں، وہی تم ہو
مگر کھویا ہوا ہوں میں مگر تم بھی کہیں گم ہو
محبت میں دَغا کی تھی سُو کافر تھے سُو کافر ہیں
ملی ہیں منزلیں پھر بھی مسافر تھے، مسافر ہیں
تیرے دل کے نکالے ہم کہاں بھٹکے، کہاں پہنچے
مگر بھٹکے تو یاد آیا بھٹکنا بھی ضروری تھا
تیری آنکھوں کے دریا کا اتُرنا بھی ضروری تھا
محبت بھی ضروری تھی بچھڑنا بھی ضروری تھا
ضروری تھا کہ ہم دونوں طوافِ آرزؤ کرتے
مگر پھر آرزؤوں کا بکھرنا بھی ضروری تھا
(خلیل الرحمٰن قمرؔ)
اُٹھ شاہ حُسینا ویکھ لے اسّی بدلی بیٹھے بھیس
ماں بولی
اُٹھ شاہ حُسینا ویکھ لے اسّی بدلی بیٹھے بھیس
ساڈی جِند نمانی کُوکدی اسی رُل گئے وِچ پردیس
ساڈا ہر دم جی کُرلاوندا، ساڈی نِیر وگاوے اَکّھ
اساں جیوندی جاندے مر گئے، ساڈا مادھو ہوئیا وَکھ
سانوں سپّ سمے دا ڈنّگدا، سانوں پَل پَل چڑھدا زہر
ساڈے اندر بیلے خوف دے، ساڈے جنگل بن گئے شہر
اساں شوہ غماں وِچ ڈُبدے، ساڈی رُڑھ گئی ناؤ پتوار
ساڈے بولن تے پابندیاں، ساڈے سر لٹکے تلوار
اساں نیناں دے کھوہ گیڑ کے کِیتی وتّر دل دی بھوں
ایہ بنجر رہ نماننڑی، سانوں سجّن تیری سَونھ
اساں اُتوں شانت جاپدے، ساڈے اندر لگی جنگ
سانوں چُپ چپیتا ویکھ کے، پئے آکھن لوک ملنگ
اساں کُھبے غم دے کھوبڑے، ساڈے لمے ہو گئے کیس
پا تانے بانے سوچدے، اساں بُندے ریندے کھیس
ہُن چھیتی دوڑیں بُلھیا، ساڈی سولی ٹنگی جان
تینوں واسطہ شاہ عنایت دا، نہ توڑیں ساڈا مان
اساں پیریں پا لئے کُنگھرو، ساڈی پاوے جِند دھمال
ساڈی جان لباں تے اپّڑی، ہُن چھیتی مُکھ وِکھال
ساڈے سر تے سورج ہاڑھ دا، ساڈے اندر سِیت سیال
بن چھاں ہُن چیتر رُکھ دی، ساڈے اندر بھانبڑ بال
اساں مچ مچایا عشق دا، ساڈا لُوسیا اِک اِک لُوں
اساں خُود نوں بُھلّے سانولا، اساں ہر دم جپیا توں
سانوں چِنتا چِخا چڑھاون دی، ساڈے تِڑکن لَگے ہَڈ
پَھڑ لیکھاں برچھی دُکھ دی ساڈے سینے دتی کَڈ
اساں دھُر تُوں دُکھڑے چاکدے ساڈے لیکھیں لکھیا سوگ
ساڈی واٹ لمیری دُکھ دی،ساڈے عُمروں لمے روگ
ساڈے ویہڑے پھوہڑی دُکھ دی،ساڈا رو رو چوئیا نور
ایہ اوکڑ ساڈی ٹال دے، تیرا جیوے شہر قصور
آ ویکھ سُخن دیا وارثا،تیرے جنڈیالے دی خیر
اَج پُتر بولی ماں دے پئے ماں نال رکھن وَیر
اَج ہیر تیری پئی سہکدی، اَج کَیدو چڑھیا رنگ
اَج تخت ہزارے ڈھے گئے،اَج اُجڑیا تیرا جھَنگ
اَج بیلے ہو گئے سنجڑے، اَج سُکیا ویکھ چنھا
اَج پِھرن آزُردہ رانجھڑے، اَج کھیڑے کر دے چاء
اَج ٹُٹی ونجھلی پریت دی، اَج مُکے سُکھ دے گِیت
بَن جوگی دَر دَر ٹولیا، سانوں کوئی نہ مِلیا مِیت
(بابا غلام حسین ندیمؔ)
یہ مشغلہ ہے کسی کا نہ جانے کیا چاہے
غزل
یہ مشغلہ ہے کسی کا نہ جانے کیا چاہے
نہ فاصلوں کو مٹائے نہ فیصلہ چاہے
میری بساط ہے کیا میں ہوں برگِ آوارہ
اڑا کے لے چلے مجھ کو جدھر ہوا چاہے
جو اصل چہرہ دکھاتا ہے ترجمان بن کر
اس آئینےکی طرف کون دیکھنا چاہے
نہ جانے کیا میرے صیاد کا ارادہ ہے
جلا چکا ہے نشیمن اب اور کیا چاہے
ہزاروں ڈوبنے والے بچا لیے لیکن
اسے میں کیسے بچاؤں جو ڈوبنا چاہے
نہ جانے خونِ تمنا کیا ہے کس کس نے
مگر وہ شخص فقط مجھ سے خوں بہا چاہے
(زاہد آفاقؔ)
پھر شورِ سلاسل میں سرورِ ازلی ہے
غزل
پھر شورِ سلاسل میں سرورِ ازلی ہے
پھر پیش نظر سنت سجادؓ ولی ہے
غارت گریٔ اہل ستم بھی کوئی دیکھے
گلشن میں کوئی پھول نہ غنچہ نہ کلی ہے
اک برقِ بلا کوند گئی سارے چمن پر
تم خوش کہ میری شاخِ نشیمن ہی جلی ہے
کب اشک بہانے سے کٹی ہے شبِ ہجراں
کب کوئی بلا صرف دعاؤں سے ٹلی ہے
دو حق و صداقت کی شہادت سرِ مقتل
اٹھو کہ یہی وقت کا فرمانِ جلی ہے
ہم راہ روِ دشت بلا روزِ ازل سے
اور قافلہ سالار حسینؓ ابن علیؓ ہے
(نوابزادہ نصراللہ خان)